let largeString = """ اے لوگو !تمہاری جانیں اور تمہارے اموال تم پر عزت و حرمت والے ہیں یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملاقات کرو۔ یہ اس طرح ہے جس طرح تمہارا آج کا دن حرمت والا ہے ، جس طرح تمہارا یہ مہینہ حرمت والا ہے، اور جس طرح تمہارا یہ شہر حرمت والا ہے۔ بیشک تم اپنے رب سے ملاقات کرو گے وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ سنو! اللہ کا پیغام میں نے پہنچا دیا اور جس شخص کے پاس کسی نے امانت رکھی ہو اس پر لازم ہے کہ وہ اس امانت کو اس کے مالک تک پہنچا دے۔ سارا سود معاف ہے لیکن تمہارے لئے اصل زر ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پر کوئی ظلم کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ کوئی سود نہیں۔ سب سے پہلے جس ربا کو میں کالعدم کرتا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے۔ یہ سب کا سب معاف ہے۔ زمانہ جاہلیت کی ہر چیز کو میں کالعدم قرار دیتا ہوں اور تمام خونوں میں سے جو خون میں معاف کر رہا ہوں وہ حضر ت عبد المطلب کے بیٹے حارث کے بیٹے ربیعہ کا خون ہے جو اُس وقت بنو سعد کے ہاں شیر خوار بچہ تھا اور ہذیل قبیلہ نے اُس کو قتل کر دیا۔ اے لوگو! شیطان اس بات سے مایوس ہو گیا ہے کہ اس زمین میں کبھی اس کی عبادت کی جائے گی۔ لیکن اسے یہ توقع ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے گناہ کرانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس لئے تم ان چھوٹے چھوٹے اعمال سے ہوشیار رہنا۔ پھر فرمایا کہ جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، سال کو بارہ مہینوں میں تقسیم کیا ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں (ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب) ان مہینوں میں جنگ و جدال جائز نہیں۔ (کفار اپنے اغراض کے پیشِ نظر ان مہینوں میں ردوبدل کر لیا کرتے تھے) اے لوگو! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، میں تمہیں عورتوں کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ تمہارے زیردست ہیں، وہ اپنے بارے میں کسی اختیار کی مالک نہیں اور یہ تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہیںاور اللہ کے نام کے ساتھ وہ تم پر حلال ہوئی ہیں تمہارے ان کے ذمہ حقوق ہیں اور ان کے تم پر بھی حقوق ہیں۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر کی حرمت کو برقرار رکھیں اور ان پر یہ لازم ہے کہ وہ کھلی بے حیائی کا ارتکاب نہ کریں۔ اور اگر ان سے بے حیائی کی کوئی حرکت سر زد ہو پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں اجازت دی ہے کہ تم ان کو اپنی خوابگاہوں سے دور کر دو، اور انہیں بطورِ سزا تم مار سکتے ہو۔ لیکن جو ضرب شدید نہ ہو، اور اگر وہ باز آجائیں تو پھر تم پر لازم ہے کہ تم ان کے خوردونوش اور لباس کا عمدگی سے انتظام کرو۔ اے لوگو! میری بات کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو۔ بیشک میں نے اللہ کا پیغام تم کو پہنچا دیا ہے اور میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہو گے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب (قرآنِ کریم) اور اس کے نبی ﷺ کی سنت۔ اے لوگو! میری بات غور سے سنو اور اس کو سمجھو تمہیں یہ چیز معلوم ہونی چاہیے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ کسی آدمی کیلئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کے مال سے اس کی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز لے، پس تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔ جان لو! کہ دل ان تینوں باتوں پر حسد و عناد نہیں کرتے۔ ۱۔ کسی عمل کو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے کرنا۔ ۲۔ حاکمِ وقت کو ازراہِ خیر خواہی نصیحت کرنا۔ ۳۔ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ شامل رہنا۔ اور بیشک ان کی دعوت ان لوگوں کو بھی گھیرے ہوئے ہے جو ان کے علاوہ ہیں ۔ جس کی نیت طلبِ دنیا ہو اللہ تعالیٰ اس کے فقر و افلاس کو اس کی آنکھوں کے سامنے عیاںکر دیتا ہے اور اس کے پیشہ کی آمدن منتشر ہو جاتی ہے اور نہیں حاصل ہوتا اس کواس سے مگر اتنا جو اس کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے اور جس کی نیت آخرت میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کر دیتا ہے اور اس کا پیشہ اس کیلئے کافی ہو جاتا ہے اور دنیا اس کے پاس آتی ہے اس حال میں وہ اپنا ناک گھسیٹ کر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے میری بات کو سنا اور دوسروں تک پہنچایا۔ بسا اوقات وہ آدمی جو فقہ کے کسی مسئلے کا جاننے والا ہے وہ خود فقیہ نہیں ہوتا اور بسا اوقات حاملِ فقہ کسی ایسے شخص کو بات پہنچاتا ہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے۔ تمہارے غلام، تمہارے غلام جو تم خود کھاتے ہو ان سے ان کو کھلائو۔ جو تم خود پہنتے ہو ان سے ان کو پہنائو، اگر ان سے کوئی ایسی غلطی ہو جائے جس کو تم معاف کرنا پسند نہیں کرتے تو ان کو فروخت کر دو۔ اے اللہ کے بندو! ان کو سزا نہ دو۔ میں پڑوسی کے بارے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں (یہ جملہ سرکارِ دوعالم ﷺ نے اتنی بار دہرایا کہ یہ اندیشہ لاحق ہو گیا کہ حضور ﷺ پڑوسی کو وارث نہ بنا دیں) اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے، اس لئے کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ اپنے کسی وارث کیلئے وصیت کرے۔ بیٹا، بستر والے کا ہوتا ہے یعنی خاوند کا اور بدکار کیلئے پتھر۔ جو شخص اپنے آپ کو اپنے باپ کے بغیر کسی طرف منسوب کرتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہو۔ نہ قبول کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے کوئی بدلہ اور کوئی مال۔ جو چیز کسی سے مانگ کر لو اسے واپس کرو،اور قرضہ لازمی طور پر اسے ادا کرنا چاہیے اور جو ضامن ہو اس پر اس کی ضمانت ضروری ہے۔ تم سے میرے بارے میں دریافت کیا جائے گا، تم کیا جواب دو گے؟ انہوں نے کہا، ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا پیغام پہنچایا، اس کو ادا کیا اور خلوص کی حد کر دی۔ حضورﷺ نے اپنی انگشتِ شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا، پھر لوگوں کی طرف موڑ ااور فرمایا، اے اللہ! تو بھی گواہ رہنا۔ اے اللہ! تو بھی گواہ رہنا۔ اے اللہ! تو بھی گواہ رہنا۔ عرفات میں یہ جلیل الشان خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد حضرت بلال کو حکم دیا، انہوں نے اذان کہی، پھر اقامت کہی، امام الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ظہر کی دو رکعت پڑھیں۔ اس میں قرأت آہستہ دل میں پڑھی، پھر انہوں نے اقامت کہی اور عصر کی دو رکعتیں پڑھیں۔ اُس رو ز یوم الجمعہ تھا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر موقف پر تشریف لائے اور غروبِ آفتاب تک یہ سارا وقت بڑے عجز و نیازسے بارگاہِ الٰہی میں مصروف دعا رہے۔ ان دعائوں میں سے ایک دعا یہ تھی: "اے اللہ! ساری تعریفیں تیرے لئے ہیں اس طرح جس طرح ہم تیری حمد کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی بہتر۔ اے اللہ! میری نمازیں، میری قربانیاں، میری زندگیاں اور میری موت صرف تیرے لئے ہے۔ میرا لوٹنا بھی تیری جناب میں ہے اور میری میراث تیرے حوالے ہے۔ اے اللہ! میں عذابِ قبر سے، سینہ میں پیدا ہونے والے وسوسوں اور کسی مقصد کے منتشر ہونے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ! میں ہر اس چیز کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جس کا سبب ہوا ہو اور اس چیز کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو رات میں داخل ہو، اور ہر اُس چیز کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو دِن میں داخل ہو۔ نیز زمانہ کی تباہ کاریوں کے شر سے بھی پناہ مانگتا ہوں" اسی مقام پر دوسری دعا جو حضورﷺ نے مانگی حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق اس کی یہ عبارت ہے: "اے اللہ تو میری گفتگو کو سنتا ہے۔ میری قیام گاہ کو دیکھ رہا ہے۔ میرے باطن اور ظاہر کو جانتا ہے، میرے حالات میں سے کوئی چیز تجھ پرمخفی نہیں، میں غمزدہ اور فقیر ہوں۔ میں تیری جناب میں فریاد کرنے والا ہوں، پناہ مانگنے والا ہوں، ڈرنے والا، خوفزدہ، اپنے گناہوں کا اقرار و اعتراف کرنے والا، میں تجھ سے ایک مسکین کی طرح سوا ل کرتا ہوں اور ایک گنہگار، ضعیف اور کمزور کی عاجزی کی طرح عاجزی کرتا ہوں اور تیری جناب میں اسطرح دعا کرتا ہوں جسطرح ایک ڈرنے والا نابینا دعا مانگتا ہے، جس کی گردن تیرے لئے جھک گئی ہے، جس کے آنسو تیرے ڈر سے بہہ رہے ہیں، جس کا جسم عاجزی کر رہا ہے، جس کی ناک تیری بارگاہ میں خاک آلود ہے۔ اے میرے اللہ! مجھے شقی نہ بنانا اور میری دعا قبول کرنا اور میرے ساتھ مہربانی اور رحم کا سلوک کرنا، اے ان سب سے بہتر جن سے مانگا جاتا ہے اور ان سب سے بہتر جو عطا کرتے ہیں" اس روز کی دعائوں میں سے ایک دعا جو سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے، یہ ہے: "کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ سارے ملک، ساری تعریفیں اسی کیلئے ہیں۔ ساری بھلائیاں اس کے دستِ قدرت میں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ! میرے دل میں نور کر دے، میرے سینے میں نور کر دے، میرے کانوں میں نور کر دے، میری آنکھوں میں نور کر دے، اے اللہ! میرے سینے کو اپنے لئے کھول دے، میرے ہر حصہ کو اپنے لئے آسان فرما۔ میں سینہ کے وسوسوں سے، حالات کے پراگندہ ہونے سے، قبر کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ! جو فتنہ رات میں داخل ہوتا ہے اور دن میں داخل ہوتاہے، اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس کے شر سے جس کے ساتھ ہوائیں چلتی ہیں اور زمانہ کی ہلاکت انگیزیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں" اسی مقام پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی جس میں دین کے مکمل ہونے اور نعمتوں کے اتمام پذیر ہونے کا مژدہ جانفزا سنایا گیا: أَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْأِسْلَامَ دِیْنًا۔ جس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیتِ مبارکہ سن لی، زاروقطار رونے لگے ۔کیونکہ انہوں نے محسوس کیا کہ نبی کریم ﷺ کی رحلت کا وقت قریب آگیا ہے۔ مقبولیت کے ان زریں لمحات میں حضورﷺ نے اپنی امت کو فراموش نہیں کیا بلکہ ان کی بخشش و مغفرت کیلئے بھی اپنے کریم و رحیم رب کی جناب میں کمال عجز و نیاز سے دعائیں مانگیں۔ امام ابوزہرہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ : "حضرت عباس فرماتے ہیں کہ عرفہ کی رات کو میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ حضورﷺ نے امت کی مغفرت اور اس پر رحمت کیلئے دعا مانگی اور دیر تک بصد عجز و نیاز اپنے رب کے سامنے دامن پھیلائے ہوئے یہ التجاء کرتے رہے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پر یہ وحی نازل کی کہ میں نے تیری دعا کو قبول کر لیا جن کیلئے آپ نے مغفرت کی دعا مانگی ان کو بخش دیا۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ایک دوسرے پر ظلم کیے۔ میں مظلوم کا حق ظالم سے ضرور لوں گا۔ وہ گناہ جو میرے درمیان اور میرے بندوں کے درمیان تھے، وہ میں نے معاف کر دیئے۔ نبی کریم ﷺ نے عرض کی، اے میرے پروردگار! تو اس بات پر قادر ہے کہ مظلوم کو اس کے حق کے بدلے میں جنت میں سے کوئی قطعہ دے دے اور اس ظالم کو بخش دے لیکن اس رات کو یہ دعا قبول نہ ہوئی" جب صبح مزدلفہ پہنچے اور وہاں پھر اپنے گنہگار امتیوں کیلئے مغفرت کی دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کی اس دعا کو شرفِ قبولیت سے نوازا۔ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت فاروقِ اعظم نے جب اپنے محبوب کو ہنستے دیکھا تو عرض کی: "ہمارے ماں باپ حضورﷺ پر قربان ہوں، ایسے اوقات میں تو حضور ہنسا نہیں کرتے تھے، آج حضورﷺ کیوں ہنس رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضورﷺ کو ہمیشہ ہنستا رکھے" ارشاد فرمایا: کہ اللہ کے دشمن ابلیس نے جب یہ جانا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمالی ہے اور میری امت کو بخش دیا ہے تو وہ مٹی کی مٹھیاں بھر بھر کر اپنے سر پر ڈالنے لگا وَیَدَعُوْ بِالْوَیْلِ وَالثُّبُوْرِ"اورمیں تباہ ہو گیا، برباد ہو گیا" کا واویلا کرنے لگا۔ اس کی اس حالتِ زار کو دیکھ کر مجھے ہنسی آگئی۔ رحمتِ عالم ﷺ نو ذی الحجہ کو زوال آفتاب سے لے کر غروبِ آفتاب تک اپنی امت کیلئے اور نوع انسانی کیلئے اپنے رحیم و کریم رب کی بارگاہ میں انتہائی عجز و نیاز سے مصروف دعا رہے یہاں تک کہ جب سورج غرب ہو گیا، تاریکی پھیل گئی تو حضور مزدلفہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مزدلفہ سے مراسمِ حج ادا کرنے کے بعد جب حضورﷺ منیٰ میں تشریف لائے وہاں تمام حاضرین کو اپنے دوسرے خطبہ سے مشرف فرمایا۔ عمرو بن خارجہ رضی اللہ عنہ حضور کی اونٹنی کی گردن کے نیچے کھڑے تھے جو لعاب اونٹنی کے منہ سے ٹپک رہا تھا وہ حضرت عمرو بن خارجہ کے دونوں کندھوں کے درمیان بہہ رہا تھا۔ حضور اس وقت اپنی اونٹنی جس کا نام عضباء تھا، پر سوار تھے۔ سرورِ عالم ﷺ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی اور اس کے بعد یہ خطبہ ارشاد فرمایا: "حاضرین میری بات توجہ سے سنو! زمانہ گردش کرتے ہوئے اس حالت پر پہنچ گیا جب اس کا آغاز ہوا، جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا گیا۔ سال کے بارہ مہینے ہیں ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں، تین لگاتار ہیں ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور رجب جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان ہے" پھر فرمایا تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں جس طرح یہ حرمت والا دن، اس حرمت والے شہر میں، اس حرمت والے مہینہ میں، عزت و شرف کا مالک ہے اور عنقریب تم اپنے رب سے ملاقات کرو گے، وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ کان کھول کر سن لو! میرے بعد کافر نہ بن جانا۔ کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگ جائو! غور سے سنو! جو یہاں موجود ہیں میرا یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں۔ شاید جس کو تم میرا یہ پیغام پہنچائو وہ میرے اس پیغام کو تم سے زیادہ سمجھنے اور یاد رکھنے والا ہو۔ پھر فرمایا بتائو کیا میں نے اللہ کاپیغام پہنچا دیا؟ عرض کی، یا رسول اللہ ﷺ! بیشک۔ پھر حضورﷺ نے بارگاہِ رب العزت میں عرض کی، اے میرے اللہ گواہ رہنا" خطبہ سے فارغ ہونے کے بعد حضور ﷺ منیٰ کے اس مقام پر پہنچے جہاں جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔ حضور ﷺ قربانی کیلئے سو اونٹ اپنے ہمراہ لائے تھے۔ ان میں سے تریسٹھ اونٹ سرکارِ دو عالمﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے ذبح کیے۔ اس وقت حضورﷺ کی عمر مبارک تریسٹھ سال تھی۔ ہر سال کے بدلے ایک اونٹ ذبح کیا۔ بقیہ سینتیس اونٹ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے حضورﷺ کے حکم کی تعمیل میں ذبح کیے۔ آپ نے حکم دیا کہ ان اونٹوں کا گوشت، چمڑے اور سامان غرباء و مساکین میں تقسیم کر دیا جائے اور حکم دیا کہ قربانی کے جانور کے گوشت سے ذبح کرنے والے کو بطورِ اجرت کچھ نہ دیا جائے۔ جب حضورﷺ قربانی کے جانور ذبح کرنے لگے تو پانچ پانچ اونٹوں کو اکٹھے پیش کیا جاتا اور ہراونٹ دوڑ کر حضورﷺ کے پاس آتا اور اپنی گردن رکھ دیتا تاکہ اللہ کا محبوبﷺ اپنے دستِ مبارک سے اسے راہِ خدا میں ذبح کرے۔ سرکارِ دوعالم ﷺ نے اپنی ازواجِ مطہرات کی طرف سے ایک گائے ذبح کی۔ گیارہ ذی الحجۃ، اس تاریخ میں سورۃ "النصر" نازل ہوئی۔ حضور ﷺ کو پتا چل گیا کہ عالم فانی سے میرے رحلت کرنے کا وقت قریب آگیا ہے۔ اس لئے حکم دیا کہ اونٹنی پر کجاوہ کسا جائے۔ پھر حضورﷺ اس پر سوار ہو کر عقبہ کے مقام پر تشریف لے گئے اور سب لوگ وہاں جمع ہو گئے۔ اس وقت رحمتِ عالم ﷺ نے ایک فصیح و بلیغ اور جلیل الشان خطبہ ارشاد فرمایا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی اور اس کے بعد یوں گویا ہوئے: "اے لوگو! کان کھول کر سن لو۔ تمہارا پروردگار ایک ہے۔ کان کھول کر سن لو۔ تمہارا باپ ایک ہے، کان کھول کر سن لو، عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ عجمی کو فضیلت ہے عربی پر۔ نہ کالے رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر اور نہ سرخ رنگت والے کو کالی رنگت والے پر بجز تقویٰ کے" اللہ کی جناب میں تم میں سے وہی زیادہ معزز اور محترم ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔ کان کھول کر سن لو! کیا میں نے اللہ کے پیغامات تم تک پہنچا دیئے؟ سب نے کہا، اللہ کے رسول ﷺنے اپنے رب کے سارے پیغامات پہنچا دیئے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا جو یہاں موجود ہیں وہ یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ بسا او قات جس کو بعد میں یہ پیغام پہنچایا جائے گا وہ آج سننے والوں سے زیادہ عقلمند ہو گا۔ اے لوگو! شیطان اس بات سے مایوس ہو گیا ہے کہ تمہاری اس زمین میں اس کی پوجا کی جائے گی لیکن وہ اس بات پر راضی ہو گیا ہے کہ تم چھوٹے چھوٹے گناہوں کا ارتکاب کرو۔ بیشک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ بیشک سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ کسی مسلمان کیلئے اپنے بھائی کا خون اور مال حلال نہیں جب تک وہ خوشی سے نہ دے۔ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ کہیں لا الٰہ الا اللہ۔ جب وہ یہ کہیں گے تو اپنے خون اور اموال کو ہم سے محفوظ کر لیں گے بجز ان کے حق کے اور ان کے اعمال کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔ میرے بعد پھر کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔ میں تم میں ایک ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو راہِ راست سے نہیں بھٹکو گے۔ وہ ہے اللہ کی کتاب۔ اے لوگو! میں نے اللہ کا پیغام تمہیں پہنچا دیا؟ سب نے کہا، بیشک۔ حضور ﷺ نے عرض کی، اے اللہ! تو بھی گواہ رہنا، اے اللہ! تو بھی گواہ رہنا، اے اللہ! تو بھی گواہ رہنا۔ یہ ایک ایسا جامع اور جلیل القدر خطبہ ہے کہ طالبان حق قیامت تک اس سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔ اس میں امت کے ہر طبقہ کیلئے رشد و ہدایت کے وہ قواعد و ضوابط بیان کر دیئے گئے ہیں کہ اگر امت ان پر کاربند رہے گی تو دونوں جہانوں میں فوزوفلاح کا تاج اس کے سر پر چمکتا رہے گا۔ """